Download (5MB)
رمضان اور جدید مسائل (طبع خامس)۔
مؤلف: مفتی شعیب اللّٰہ مفتاحی باني و مهتمم الجامعة الاسلامية مسيح العلوم بنگلور و خلیفہ حضرت اقدس شاه مفتی مظفر حسین حمة الله عليه ناظم مظاهر علوم وقف سهارنيور
مرتب : مولانا یاسین صاحب
صفحات: ۲۴۳
ناشر: ملت مسیح الامت دیوبند و بنگلور
نحمده ونصلي على رسوله الكريم . أما بعد دور حاضر کے جدید اکتشافات و تحقیقات نئے نئے آلات و ایجادات اور حیرت افزا حالات و واقعات نے جو بے شمار مسائل پیدا کر دیے ہیں ان میں سے بہت سے مسائل وہ ہیں، جن کا تعلق دین کے ایک اہم شعبے یعنی فقہ سے ہے، ان مسائل نے علمائے اسلام کو ان کے حل کرنے کی دعوت دے دی ہے۔ یہ علم و تحقیق کی ترقی و تطویر اگر ایک طرف انسانیت کے لیے ایک تحفہ نادرہ اور نعمت غیر مترقبہ ہے، تو دوسری طرف دین اسلام کی حقانیت و صداقت ، اس کی علمیت و معقولیت کو آشکارا کرنے کی ایک خدائی تدبیر ہے، کیوں کہ جوں جوں ایسے مسائل سامنے آکر اسلامی نقطہ نظر سے حل ہوتے جائیں گے، اسلام کی صداقت و حقانیت کا پرچم اتنی ہی جرأت کے ساتھ بلند کیا اور اہرایا جا سکے گا اور اس کی علمیت و معقولیت اسی قدر صفائی سے آشکارا ہوگی۔
لہذا نئے نئے مسائل کے شرعی وفقہی حل کی طرف توجہ دینا، ایک اہم ترین اسلامی فریضہ ہے اور دینی ضرورت ہے؛ چناں چہ ہر زمانے کے علماء نے نہ صرف یہ کہ اس کام کی اہمیت اور ذمہ داری محسوس کی ہیں کہ اس کو روبہ عمل لانے کی بھی بھر پور کوشش فرمائی اور ان جدید مسائل پر اسلامی نقطہ نظر سے غور و فکر کرکے ان کا شرعی و فقہی حل پیش کیا ۔ الحمد للہ اب تک جدید مسائل پر بہت بڑا ذخیره فقہی و شرعی نقطہ نظرسے تیار ہوچکا ہے
زیر نظر رسالہ بھی اسی سلسلے کی ایک حقیر کڑی ہے، جس میں صرف ان مسائل کو زیر بحث لایا گیا ہے، جن کا تعلق رمضان المبارک سے ہے؛ مثلاً : رؤیت ہلال ، روزه ، تراویح ، اعتکاف ، صدقه فطر وفد یہ ؛ ان ابواب سے متعلق جدید مسائل سے اس میں بحث کی گئی ہے۔
یہ رسالہ پہلی دفعہ ۱۳۰۹ھ مطابق ۱۹۸۹ء میں شائع ہوا ، اب دوبارہ نظر ثانی کے بعد اور متعدد مقامات کی توضیح اور متعدد مسائل کے اضافے کے ساتھ شائع ہو رہا ہے، اس رسالے میں میں نے اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ (1) ہر مسئلے میں قدیم فقہا کے کلام سے کوئی صریح جزئی مل جائے یا اس مسئلے کی
نظیر مل جائے ۔ (۲) دوسرے نمبر پر اکابر علما، جیسے حضرت تھانوی، حضرت مفتی محمد شفیع صاحب ، مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ وغیرہ حضرات کی علمی و فقہی تحقیقات سے بھر پور استفادہ کیا گیا ہے۔ (۳) جہاں کوئی واضح کلام ان حضرات کا نہ مل سکا، وہاں مستند فقہی نظائر سے
مسئلے کا استنباط کیا گیا ہے اور حتی الامکان احتیاط کے پہلو کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ (۴) بعض بعض مسائل میں معاصر علماء کی آرا سے اختلاف بھی کیا ہے اور اس کے دلائل بھی وضاحت سے پیش کر دیے گئے ہیں۔ مگر چوں کہ یہ اجتہادی مسائل ہیں ؛ اس لیے کسی کو دوسری رائے صحیح معلوم ہو، تو وہ بلاشبہ اپنی رائے پر عمل کر سکتا ہے اور اگر میری رائے کی غلطی واضح ہو جائے، تو بندے کو اپنی رائے پر اصرار بھی نہ ہوگا۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس رسالے کو مفید و مقبول بنائے اور میرے لیے ذخیرہ آخرت بنائے ، آمین۔۔۔ مؤلف