Read Online
Download Link 1
Download Link 2
آسان بيان القرآن
تصنیف: حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
تسہیل نگار: حضرت مولانا عقیدت الله قاسمی فاضل و مدرس دار العلوم دیوبند
نظرثانی: حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری شيخ الحديث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند
اہتمام و پیشکش: مفتی عبدالرؤف غزنوی فاضل و سابق استاذ و خطیب دار العلوم دیوبند ، استاذ حدیث جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
اشاعت: ۱۴۴۰ / ۲۰۱۹
ناشر: مکتبہ غزنوی ، سلام کتب مارکیٹ کراچی
مکمل بیان القرآن: حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ کی مایہ ناز تصنیف ہے، لوگ کہتے ہیں کہ اس تفسیر میں حضرت کے بارہ سال خرچ ہوئے ہیں،(حقیقت یہ ہے کہ ڈھائی سال میں لکھی گئی ہے) اب چار دانگ عالم میں اس کی شہرت ہے، ایک دنیا اس سے مستفید ہو رہی ہے، اس میں حضرت قدس سرہ نے علمی زبان استعمال کی ہے، جب وہ طبع ہوئی اور حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری قدس سره سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کے مطالعہ میں آئی تو آپ نے فرمایا کہ میرا خیال تھا کہ علوم عربی میں ہیں، اب اندازہ ہوا کہ اردو میں بھی ہیں اس ارشاد سے بیان القرآن کا مقام و مرتبہ آشکارا ہوتا ہے، یہ تفسیر گنجینہ علوم ہے، خاص طور پر جدید تعلیم یافتہ حضرات کے شبہات کا تشفی بخش جواب اس میں ہے۔
جب حضرت قدس سرہ نے یہ تفسیر لکھنی شروع کی تو دیگر لواحقات و لوازمات کا الزام نہیں کیا تھا پھر سورۃ المائدہ سے اس کا التزام شروع کیا اور حاشیہ میں عربی میں لغات، روایات، نحو و صرف، بلاغت و معانی، اور ملحقات ترجمہ کا اضافہ کیا اور مسائل السلوک حاشیے پر چڑھائی، پھر اس کا ترجمہ کیا، اس طرح وہ ایک مستقل کتاب بن گئی، باقی باتیں حضرت نے عربی میں لکھی تھیں، اس آسان بیان القرآن میں اس کا ترجمہ اور تسہیل نہیں کی گئی، کیونکہ یہ چیزیں خواص کے لئے تھیں، بلکہ اخص الخواص کے لئے تھیں، لیکن اصل تفسیر بیان القرآن سبھی لوگوں کے لئے تھی، اس لئے اس کو اردو میں لکھا تھا، مگر زبان علمی استعمال کی تھی اور عنوانات فارسی میں لکھے تھے، اس لئے وہ تفسیر عوام کی دسترس سے باہر ہوگئی، بلکہ علماء بھی اس سے کما حقہ
فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ اس لئے ضرورت تھی کہ کوئی اس کی تسہیل کرتا مگر لوہے کے چنے کون چباتا۔
اللہ کا شکر ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے ایک پرانے فاضل جناب مولانا عقیدت اللہ صاحب قاسمی ( فراغت ۱۹۷۷ء) کو یہ سعادت نصیب ہوئی ، موصوف صحافی کی حیثیت سے کام کرتے رہے ہیں، اس لئے آسان زبان لکھنے پر قادر ہیں، انھوں نے ہمت کی اور پوری بیان القرآن کی تسہیل کی، یہ انھوں نے بڑا کارنامہ انجام دیا۔
پھر وہ اس کو لے کر میرے پاس آئے، انھوں نے چاہا کہ میں اس کو شائع کروں، میں نے ان کو مشورہ دیا کہ دارالعلوم دیو بند کے مہتمم صاحب کو دیں ، حضرت قدس سرہ کی کتاب دارالعلوم دیو بند کے مکتبہ سے شائع ہوگی تو اس کی شان بڑھے گی، وہ مسودہ لے کر حضرت مہتمم صاحب کے پاس گئے، دارالعلوم دیو بند کے مہتم حضرت مولانا ابو القاسم صاحب نعمانی زید مجدہ نے مسودہ رکھ لیا، پھر انھوں نے مجھ سے رابطہ کیا، میں نے عرض کیا کہ پہلے کسی استاذ کو دکھائی جائے، اس لئے کہ بڑے حضرت کی کتاب ہے، دار العلوم کو اطمینان کر کے شائع کرنا چاہئے۔
مہتمم صاحب نے مسودہ مولانا نسیم صاحب ( استاذ دارالعلوم دیوبند) کے پاس بھیج دیا، انھوں نے رپورٹ دی اور تسہیل کی خوب ستائش کی، حضرت مہتمم صاحب نے پھر مجھ سے رابطہ کیا، میں نے عرض کیا صرف تسہیل پڑھ کر مولانا نے جور پورٹ دی ہے وہ کافی نہیں تسہیل کو اصل کتاب سے ملانا ضروری ہے تسہیل نگار نے صحیح ترجمانی کی ہے یا نہیں؟ اس کا اطمینان کرنے کے بعد ہی دار العلوم کو شائع کرنا چاہئے ، اس لئے کہ حضرت قدس سرہ کی زبان بیان القرآن میں اردوئے معلی ہے تسہیل کرنے والا اسے سمجھا ہے یا نہیں؟ یہ بھی جاننا ضروری ہے، اور بعض حقائق و دقائق تو حضرت نے عرش پر بیٹھ کر لکھے ہیں، اس کو تسہیل نگار فرش پر لا سکا ہے یا نہیں؟ اور بعض شبہات کے جوابات منطق و فلسفہ کی دنیا میں گھس کر دیئے ہیں اور ایک جگہ تو یہ اطلاع عام لکھی ہے کہ اس مضمون میں عام لوگ غور نہ کریں، اس لئے اس تسہیل کو اصل کتاب سے ملانا ضروری ہے۔
مہتمم صاحب مدظلہ نے مزید گفتگو کے لئے مجھے بلایا اور فرمایا کہ اتنا بڑا کام کون کر سکتا ہے؟ ساری کتاب کو اصل سے ملانا بڑا مشکل کام ہے! میں نے عرض کیا کہ مسودہ مجھے دے دیجئے ، میں پوری کتاب اصل سے ملاؤں گا، پھر اپنے کمپیوٹر سے کتابت کراؤں گا، پھر صحیح بھی خود کروں گا، پھر حرف آخر کر کے دارالعلوم کو دوں گا۔ مگر جب کام شروع کیا تو خیال آیا کہ پوری کتاب جو غالباً چھ جلدوں میں مکمل ہو گی، اس کی طباعت میں اتنی تاخیر مناسب نہیں، اس لئے میں جلد جلد شائع کر رہا ہوں، پھر پورا ہونے کے بعد دارالعلوم دیو بند چاہے گا تو وہ بھی شائع کرے گا۔
حضرت مہتمم صاحب نے میری یہ بات خوشی سے منظور کرلی۔ میں نے عرض کیا کہ فی الحال میں تفسیر ہدایت القرآن میں مشغول ہوں ، جب اس سے فارغ ہوؤں گا تو یہ کام ہاتھ میں لوں گا، اس لئے کہ نفس ناطقہ بیک وقت دو کاموں کی طرف پوری طرح متوجہ نہیں ہو سکتا ، مہتمم صاحب نے میری یہ بات بھی منظور فرمالی، یوں یہ مسودہ لوٹ کر میرے پاس آگیا، میں نے مسودہ کمپوز کے لئے دے دیا، کاتب نے تقریباً آٹھ سو صفحات کمپوز کر ڈالے، اور میں تفسیر ہدایت القرآن میں مشغول رہا۔ اور اب میں بفضلہ تعالی تفسیر ہدایت القرآن سے فارغ ہو گیا ہوں، مگر میرے ذمے ایک قرض ہے، میں نے وہ قرض اتارنا چاہا، سال دو سال پہلے دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری نے یہ تجویز پاس کی تھی کہ صدر المدرسین صاحب “دیو بندیت کیا ہے” کے عنوان پر لکھیں، جب تفسیر پوری ہوئی تو میں نے اس موضوع پر لکھنے کا اعلان کر دیا۔ مگر معا خیال آیا کہ بیان القرآن کی تسہیل رکھی ہوئی ہے، پہلے یہ کام کیوں نہ نمٹا دیا جائے، دیوبندیت کو سمجھنے والے تو ابھی بہت سے حضرات ہیں، اور حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب قدس سرہ کی کتاب ” علمائے دیوبند کا دینی رخ اور مسلکی مزاج“ امت کے ہاتھوں میں ہے، اس لئے وہ کام فوری کرنا ضروری نہیں، اور بیان القرآن کی تسہیل کمپوز شدہ رکھی ہے اس لئے حاضر میں حجت نہیں غائب کی تلاش نہیں۔
میں نے اس تفسیر میں کیا کام کیا ہے؟
حضرت مولانا عقیدت اللہ صاحب قاسمی نے جو تسہیل کی ہے، اس میں انھوں نے حضرت حکیم الامت قدس سرہ کے اصل ترجمہ کی بھی کہیں کہیں تسہیل کی ہے، مشکل لفظ کو آسان لفظ سے بدلا ہے، پس وہ حضرت تھانوی کا ترجمہ نہ رہا اس لئے میں نے آیات کے بعد ترجمہ کے عنوان سے حضرت کا بعینہ ترجمہ رکھا ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی ، اس میں کوئی مشکل لفظ ہوگا تو عنوان کے بعد جو تفسیر آئے گی اس سے حل ہو جائے گا۔
حضرت حکیم الامت قدس سرہ نے حاشیہ میں ملحقات الترجمہ بھی لکھا ہے، کہیں کہیں حضرت نے اس کی وضاحت کی ہے کہ میں نے یہ ترجمہ کیوں کیا ہے؟ اس کو کتاب میں شامل کرنا چاہئے تھا، مگر وہ اہل علم کے لئے اشارے تھے، اس لئے ان کو چھوڑ دیا گیا ہے۔
بیان القرآن میں عناوین فارسی میں تھے تسہیل نگار نے ان کو اردو کا جامہ پہنایا ہے، ان کے علاوہ دوران تفسیر میں نے اور بھی عناوین بڑھائے ہیں اور مضامین کے پیرا گراف قائم کئے ہیں۔
جہاں کہیں عبارت دقیق تھی اور تسہیل سے بات واضح نہیں ہوئی تھی اس مقام کی میں نے تسہیل کی ہے، مگر دقیق بات تو دقیق ہی ہوتی ہے، کتنی بھی کوشش کی جائے اس کو عوامی سطح پر نہیں لایا جاسکتا، مگر میں نے تو در گذرنہ کی جو مجھ سے ہو سکا۔
آخر میں قارئین کرام کی طرف سے مولانا عقیدت اللہ صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے یہ بہت بڑا کام بہ حسن و خوبی انجام دیا، مولانا زید مجدہ ہمت نہ کرتے تو شاید یہ میدان سر نہ ہوتا۔ فالله يجزيه خير الجزاء، وصلى الله على محمد وآله وصحبه أجمعين، وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين۔
کتبہ: (مولانا مفتی) سعید احمد عفا اللہ عنہ پالن پوری خادم دار العلوم دیوبند
واضح رہے ! آسان بیان القرآن کے اندر مکمل بیان القرآن کے حواشی میں درج شدہ علمی مباحث اور مسائل السلوک اور اسی طرح ہر جلد کے آخر میں درج شدہ وجوہ المثانی کو شامل نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان کی تسہیل کی ا ہے، اور نہ ہی آسان بیان القرآن کا یہ مقصد ہے کہ اس کے بعد ”مکمل بیان القرآن“ سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہی باقی نہ رہے بلکہ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ حکیم الامت قدس سرہ نے جو قرآن پاک کی تفسیر کی ہے وہ آسانی کے ساتھ عام پڑھنے والوں کے ذہنوں میں اتر جائے، اہل علم حضرات کو مزید علمی تحقیقات کے لیے ”مکمل بیان القرآن“ کی طرف رجوع کرنا چاہیے، واللہ ولی التوفیق۔ از مفتی عبد الرؤف غزنوی استاد حدیث جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
جلد ۱: از ابتدا تا ختم سورة النساء
جلد ۲: از سوره مائده تا ختم سوره هود
جلد ۳: از سورہ يوسف تاختم سورة الشعراء
جلد ۴: از سوره نمل تا ختم سورة الجاثیه
جلد ۵: از سوره احقاف تاختم سورة الناس
فیس بکی دوست باخبر رہنے کے لئے ہمارا فیس بک پیج فالوو کرسکتے ہیں۔ شکریہ۔