Download (4MB)
گھریلو تشدد بل کا شرعی جائزہ
Shari’ah Review of “The Domestic Violence (Prevention and Protection) Bill, 2020”
مصنف: مفتی شعیب عالم صاحب استاذ و معاون مفتی جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
صفحات: ۱۶۸
ناشر: مكتبۃ السنان ، کراچی
پیش لفظ
گھر یلو تشدد ( تدارک و تحفظ ) ایکٹ ، 2020ء کا موضوع گھر یلو تشدد کی روک تھام ہے اور اس کا مقصد ایک ساتھ رہنے والے افراد کو ایک دوسرے کے تشدد سے بچانا ہے۔ گھر یلو تشدد کے لفظ سے ذہن اندرون خانہ مار پیٹ، زدوکوب کرنے، دوسرے کے جسم پر طاقت کے بے جا استعمال اور کسی پر تشدد کارروائی کی طرف جاتا ہے۔ اس مفہوم میں تشد د شرعا حرام، قانونا جرم اور اخلاقا ظلم ہے اور کوئی بھی ہوش مند اور انصاف پسند اس معنی میں تشدد کے جواز کا قائل ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس کے انسداد کے لیے کسی قانون کے جواز کا انکار کر سکتا ہے مگر ہل میں تشدد کا لفظ بہت ہی وسیع اور آزاد خیال معنی میں استعمال ہوا ہے اور اس کے مفہوم کو اس قدر عام کر دیا گیا ہے کہ معمولی قول و فعل یہاں تک کہ طرز عمل ، برتاؤ اور رویے کو بھی مستوجب عقوبت قرار دے دیا گیا ہے چنانچہ یہ ایک ایسا ہل بن گیا ہے جو حسن معاشرت اور حسن اخلاق کی خلاف ورزی پر بھی کڑی سزا دیتا ہے۔
تشدد کا ضرور سد باب ہونا چاہیے اور شریعت نے اس کے انسداد کا طریقہ کا ر بھی تجویز کیا ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ کوئی فعل یا ترک فعل شرعا بھی تشدد ہو۔ اس بل میں جس وسیع معنی میں کسی فعل کو تشدد قرار دیا گیا ہے وہ خود ایک تشدد ہے اور قانون ساز ادارہ تشدد کے خاتمے کے لیے متشددانہ قانون وضع کر بیٹھا ہے۔ یہی اس بل کا سب سے قابل اعتراض پہلو ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تشدد کی تعریف مغربی اداروں سے لی گئی ہے اور سوچے سمجھے بلکہ شاید پڑھے بغیر اسے من و عن یہاں لاگو کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پھر تشدد کے خاتمے کے لیے ہل اس قدر آگے چلا گیا ہے کہ انصاف کو مساوات پر قربان کر بیٹھا ہے حالانکہ مساوات کی تو روح اور غرض و غایت ہی انصاف ہے۔ دوسرے تشدد کے محض امکان کو واقعی تشد و قرار دے دیا ہے اور تیسرے یہ کہ حج کو یکطرفہ موقف پر سزا دینے کا حق دے دیا ہے اور سزائیں ایسی کڑی اور سخت رکھی گئی ہیں کہ مظلوم کی حمایت میں بل خود ظالم بن گیا ہے۔ اگر کسی کو اس حقیقت کے تسلیم کرنے میں تردد ہو تو وہ تشدد کی تعریف اور عدالت کی طرف سے تجویز کردہ عبوری اور مستقل احکام کا مطالعہ کر سکتا ہے۔ سخت اور کڑی سزاؤں کے باوجود تشدد کے خلاف بل کی جو مجموعی اسکیم ہے وہ کھلی آنکھوں ناکام ہوتی نظر آتی ہے کیونکہ بل اس مفروضے پر قائم ہے کہ خاندان محض معاشی کفالت کا ادارہ ہے اور ہمارے ہاں خاندان کے متبادل ادارے موجود ہیں۔ یوں پوری بصیرت کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس کا اجراء ممکن ہی نہیں ہے اور یہ کہنا بھی ہرگز بے جا نہیں ہے کہ پورا کا پورا ہل مغربی ہے اور ایک درآمد شدہ قانون کو یہاں کے مذہب، تہذیب و ثقافت، روایات و اقدار اور زمینی حقائق سے صرف نظر کرتے ہوئے بزور و جبر نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
جس طرح تشدد کے لفظ سے اس قانون میں تشدد کا متعارف اور رائج مفہوم مراد نہیں ہے اسی طرح گھر یلو تعلق کا مطلب بھی وہ نہیں لیا گیا ہے جو اس سے سمجھا جاتا ہے بلکہ اسے بھی ایک اجنبی مفہوم پہنا دیا گیا ہے۔ اس اجنبی اور غیر مانوس مفہوم میں بل حقیقی رشتہ داروں کی طرح ان غیر شادی شدہ جوڑوں کو بھی تحفظ اور حقوق دیتا ہے جو ایک ساتھ رہتے ہوں یا کسی وقت رہ چکے ہوں۔ گھر یلو تشدد کا یہ بل ابھی مسودہ کی شکل میں ہے۔ پہلے یہ قومی اسمبلی سے منظور ہوا، اور پھر سینیٹ میں پیش ہوا، سینیٹ نے اس میں کچھ ترامیم تجویز کیں ، جس کے بعد یہ بل توثیق کے لیے دوبارہ قومی اسمبلی لوٹ آیا ہے۔ اب اگر قومی اسمبلی سینیٹ کی تجویز کردہ ترامیم سے اتفاق کر لیتی ہے تو یہ بل ایکٹ ( قانون ) کی شکل اختیار کرلے گا اور دار الحکومت اور اس کی حدود میں نافذ ہو جائے گا مگر چاروں صوبوں میں اس نوع کے قوانین پہلے ہی نافذ ہو چکے ہیں۔ اس کتاب کے مطالعے سے صوبوں کی حد تک نافذ قوانین کی شرعی حیثیت بھی معلوم ہو جائے گی کیونکہ موضوع ، غرض و غایت، احکام کے بیان اور ضابطہ جات کے پہلو سے سب میں یکسانیت ہے۔ اگر کوئی فرق ہے تو وہ زبان و بیان ، اختصار اور تفصیل یا صوبہ جات کی مقامی ضرورت کی حد تک کا ہے مگر چونکہ یہ بل صوبہ جات کے قوانین کے مقابلے میں زیادہ جامع ہے اور ان کی خصوصیات کو سموئے ہوئے ہیں بلکہ کچھ اضافی مندرجات پر مشتمل ہے، اس لیے تبصرے اور تجزیے کے لیے اس کو منتخب کیا گیا ہے، یوں
اس کی تحسین ان سب کی تحسین اور اس پر تنقید ان سب پر تنقید ہے۔
کتاب کے مباحث کو اس طرح تقسیم کیا گیا ہے کہ پہلے باب میں مجوزہ قانون کے مندرجات و مشمولات، ٹرائل کے طریقہ کار اور بل کی قانونی خوبیوں اور خامیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ دوسرا باب بل کے شرعی تجزیے پر مشتمل ہے جو کتاب کا اہم باب ہے۔ تیسرے باب میں چند ایسے شرعی احکام کی وضاحت کی گئی ہے جن کی اس بل میں کثرت سے خلاف ورزی کی گئی ہے۔ حق تعالی شانہ سے عاجزانہ دعا ہے وہ قلب کی کجی اور قلم کی لغزش سے محفوظ رکھے اور اس حقیر کاوش کو اپنی بارگاہ عالیہ میں شرف قبولیت سے نوازے۔ آمین و صلی اللہ علی النبی الکریم۔۔۔ مصنف