Qurbani kay Ayyam o Auqaat By IFA India قربانی کے ایام و اوقات
Download (5MB)
قربانی کے ایام و اوقات
اگر کوئی شخص ایسے دور دراز علاقہ میں اپنی قربانی کرائے، جہاں وقت کا کافی فرق پایا جاتا ہو تو قربانی کے ایام و اوقات میں قربانی کرنے والے کی جگہ کا اعتبار ہوگا یا اس جگہ کا جہاں قربانی کی جارہی ہے؟ اس اہم موضوع پر اکیڈمی کے 19 ویں فقہی سمینار میں پیش کئے گئے تفصیلی مقالات و مباحث کا مجموعہ
صفحات: ۳۳۹
طبع : فروری 2011
ناشر: ایفا پبلیکیشنز نئی دہلی
اس سمینار میں درج ذیل تجاویز پاس کی گئیں :
جو شخص قربانی کا وکیل بنا رہا ہے وہ الگ مقام پر ہو اور جہاں قربانی کی جارہی ہے ہو وہ الگ مقام ہو تو اوقات قربانی کی ابتداء وانتہا کے سلسلہ میں مقام قربانی کا اعتبار ہوگا بشرطیکہ جس شخص کی طرف سے قربانی کی جارہی ہے، اس پر ۱۰ ذی الحجہ کی صبح صادق طلوع ہوگئی ہو ؛ لہذا :
الف: جس شخص کی طرف سے قربانی کی جارہی ہے اگر اس کے یہاں ۱۰ ذی الحجہ شروع نہیں ہوئی تو اس کی طرف سے قربانی نہیں کی جاسکتی، اگرچہ قربانی کئے جانے کے مقام پر اس دن ۱۰ ذی الحجہ ہو ۔
ب: جس شخص کی طرف سے قربانی کی جارہی ہے اگر اس کے یہاں ۱۲ ذی الحجہ کا غروب آفتاب ہو چکا ہے؛ لیکن جہاں قربانی ہو رہی ہے وہاں ابھی ۱۲ ذی الحجہ باقی ہے تو اس کی جانب سے قربانی کرنا درست ہے۔
ج: جس شخص کی طرف سے قربانی کی جارہی ہے اس کے مقام پر ۱۲ ذی الحجہ کی تاریخ ہے اور جہاں قربانی کی جارہی ہے وہاں ۱۲ ذی الحجہ گزر چکی ہے تو اب وہاں قربانی کرنا درست نہیں ہے۔
شق الف میں درج ذیل حضرات کا اختلاف ہے: مفتی رشید احمد فریدی، مفتی عبد الودود مظاہری، مفتی جمیل احمد نذیری، مفتی محمد عثمان گورینی، مولانا عبد الرب اعظمی ، مفتی شوکت ثناء قاسمی ، مفتی نعمت اللہ قاسمی ، مولانا محمد کامل قاسمی اور مولانا احتشام الحق ۔ ان حضرات کے نزدیک مذکورہ صورت میں قربانی درست ہے۔ البتہ ان میں سے بعض حضرات کے نزدیک احتیاط اس میں ہے کہ اس صورت میں قربانی نہ کی جائے۔
شق ب میں مفتی سلمان پالنپوری صاحب کا اختلاف ہے، ان کے نزدیک مذکورہ صورت میں قربانی درست نہیں ہے۔
Leave a Reply