Download (1MB)
اجرت تراویح کا شرعی حکم
مرتب: مولا نا محمد خالد حنفی
صفحات : ۸۰
ناشر: گواڑخ پبلی کیشن کوئٹہ
بعض اہل علم حضرات اپنے بیانات میں حفاظ کرام کو اس بات کی ترغیب دیتے ہیں کہ تراویح میں قرآن سناؤ اور اس کے ذریعے لوگوں سے زیادہ سے زیادہ پیسے وصول کرو۔ حالانکہ اللہ جل شانہ کا فرمان ہے: “و تعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الاثم والعدوان. واتقوا الله ان الله شديد العقاب ” . (المائدة (٢) ۔
طاعات پر اجرت لینے کے بارے میں ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے درمیان اختلاف ہے، سراج الائمہ امام المجتہدین امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا مسلک یہ ہے کہ طاعات پر اجرت لینا نا جائز ہے لیکن متآخرین مشائخ حنفیہ رحمہم اللہ تعالیٰ نے اندیشہ ضیاع دین کی بناء پر بعض طاعات (امامت ، مؤذنی تعلیم قرآن و غیره ) پر اخذ اجرت لینے کو جائز قرار دیا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ مثلاً میت کے لئے ایصال ثواب کرنا یا رمضان میں تراویح میں قرآن سنانا ان پر اجرت لینا اب بھی جائز نہیں ، اس لیے کہ یہاں کوئی ضرورت اور مجبوری ہے نہیں ، اگر بغیر اجرت کے تراویح میں قرآن سنانے کے لیے کوئی حافظ میسر نہ ہو تو غیر حافظ بھی بغیر اخذ اجرت کے الم ترکیف کے ساتھ تراویح پڑھا سکتا ہے۔
لہذا تر اویح میں ختم قرآن پر اجرت مقرر کر لینا خواہ صراحت ہو جیسے بعض لوگ کرتے ہیں یا بطور عرف و عادت کے ہو جیسا کہ عموماً آج کل رائج ہے دونوں صورتوں میں دینا جائز نہیں۔ لیکن آج کل عموماً اس مسئلہ کے بارے میں اکثر لوگ غلطی فہمی میں مبتلا ہیں۔ اور بلا سوچے سمجھے بغیر کسی تحقیق کے اجرت تراویح کو جائز قرار دیتے ہیں۔ لہذا اس عمومی غلطی کے ازالہ کی نیت سے میں نے ارادہ کیا کہ اس مسئلہ کو اکابرین علمائے کرام کی کتابوں سے وضاحت کے ساتھ عرض کر دوں ۔ الحمد لله الله پاک نے توفیق عطاء فرمائی تو میں نے اس رسالہ کو ترتیب دی۔ اور اللہ جل جلالہ سے دعاء ہے کہ اس مختصر سی کوشش کو اپنی بارگاہ میں قبول و مقبول فرمائے ۔ ( آمین )۔۔۔ مرتب
فیس بکی دوست باخبر رہنے کے لئے ہمارا فیس بک پیج فالوو کرسکتے ہیں۔ شکریہ۔