Download (1MB)
آسان مسائل قربانی
مسائل قربانی پر مشتمل مختصر، جامع اور مدلل کتاب
مرتب: مولانا و مفتى رضوان نسیم قاسمی استاد فقہ و افتاء معہد الدراسات العليا پٹنہ
صفحات: ۸۰
اشاعت : شوال المکرم ۱۴۴۵ مئی ۶۲۰۲۴
ناشر: مكتہ دار ارقم نیپال
قیمت (ہارڈ کاپی): 80 روپے
مقدمہ
قربانی مذہب اسلام کی ایک عظیم عبادت،شعائر اسلام میں سے ایک اہم شعار اوربے حدفضیلت والاحکم ہے، قربانی عشق و محبت کی اس لازوال داستاں کی یادگارہے جس کی نظیرپیش کرنے سے دنیاعاجز وقاصرہے، قربانی خداکی محبت میں ڈوبے ہوئے ان باپ بیٹوں کے جذبہئ ایمانی کی نشانی ہے جو خداکی محبت میں اپنی جان بھی قربان کرنے کے لئے تیارہوگئے تھے،قربانی خلوص وللہیت کے ان پیکرہستیوں کی تصویرہے جنہوں نے اس فانی دنیامیں وہ اَنمٹ نقوش چھوڑے ہیں جو قیامت تک کی انسانیت کے لئے مشعل راہ ہیں،قربانی اللہ تعالی کے ایک ایسے برگزیدہ بندہ کے عمل کی یاد ہے جن کا اطاعت الہی پر مبنی اور اخلاص سے بھر پور عمل اللہ تعالی کو اتنا پسند آیا کہ امت مسلمہ کے لیے اس عمل کو واجب کر دیا،قربانی دراصل اس عزم ویقین اور سپردگی وفدائیت کا عملی اظہار ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب اللہ ہی کا ہے اور اسی کی راہ میں یہ سب کچھ قربان ہونا چاہیے،قربانی کا سب سے اہم مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے خالق و مالک سے بے پناہ محبت و تعلق کا اظہار کریں، اس کی محبت کو تمام محبتوں پر ترجیح دیں اور حکم الہی ہو تو اس کی راہ میں اپنا خون بہانے سے بھی دریغ نہ کریں۔
قربانی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی پرانی خود مذہب یا انسان کی تاریخ ہے، انسان نے مختلف اَدوار میں عقیدت وفدائیت، سپردگی وجاں نثاری، عشق ومحبت،عجز ونیاز،ایثار وقربانی اور پرستش وبندگی کے جو جو طریقے اختیار کیے، اللہ تعالیٰ نے انسانی نفسیات اور بشری جذبات کا لحاظ رکھتے ہوئے کچھ مخصوص اصلاحات کے ساتھ ان طریقوں کو اپنے لیے خاص کردیا،انہیں طریقوں میں سے ایک طریقہ قربانی بھی ہے، انسانی تاریخ میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کی قربانی کا ذکر ملتاہے،قرآن پاک میں بھی اس کا تذکرہ ہے، ارشادربانی ہے: ”وَاتلُ عَلَیھِم نَبَأ ابنَی آدَمَ بِالحَقِّ،اِذ قَرَّبَا قُربَانًا فَتُقُبِّلَ مِن أحَدِھِمَا وَ لَم یُتَقَبَّل مِنَ الآخَرِ۔ “(سورۃ المائدۃ:27) ”اور ان کے سامنے آدم کے دوبیٹوں کا واقعہ ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سناؤ،جب ان دونوں نے ایک ایک قربانی پیش کی تھی اور ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی“۔
قربانی کا حکم ویسے توتمام آسمانی شریعتوں میں ہمیشہ موجود رہا ہے اور ہر اُمت کے نظام عبادت میں اسے ایک لازمی جز وکی حیثیت حاصل رہی ہے، جیسا کہ درج ذیل آیت سے معلوم ہوتاہے: ”وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلنَا مَنسَکًا لِّیَذکُرُوا اسمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَھُم مِّن بَھِیمَۃِ الأ نعَامِ“۔(سورۃ الحج:34) ”اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی اس غرض کے لیے مقرر کی ہے کہ وہ ان مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں عطا فرمائے ہیں“۔ لیکن عیدالاضحی کے موقع سے امت محمدیہ کے لیے جو قربانی مشروع ہوئی ہے وہ دراصل حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے ایک بے نظیر،بے مثال اور لازوال واقعہ کی یاد میں مشروع ہوئی ہے جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
”جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے چھیاسی سال کی عمر میں حضرت ہاجرہ علیہا السلام کے بطن مبارک سے حضرت اسماعیل کی شکل میں ایک ہونہاربیٹا عطا کیا اور حضرت اسماعیل اپنے والدحضرت ابراہیم کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے (ایک روایت کے مطابق تقریباً چودہ سال کے ہوگئے) تو حضرت ابراہیم نے آٹھویں ذی الحجہ کو خواب دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کررہے ہیں،آپ نے اس کی یہ تعبیر نکالی کہ اس سے مراد جانوروں کی قربانی ہے،چنانچہ آٹھویں ذی الحجہ کو آپ نے کچھ اونٹوں کی قربانی پیش کی،پھر نویں ذی الحجہ کو یہی خواب دیکھا،اس دن بھی آپ نے یہی تعبیر نکالی اورمزید کچھ اونٹوں کی قربانی پیش کی،لیکن جب دسویں ذی الحجہ کو بھی یہی خواب دیکھا توآپ سمجھ گئے کہ منشأ خداوندی یہ ہے کہ میں اسماعیل کی قربانی دوں،چوں کہ نبی کا خواب بھی وحی ہوتا ہے اس لیے حضرت ابراہیم اپنے نور نظر حضرت اسماعیل کو اللہ تعالی کی بارگاہ میں ذبح کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔اس کے بعد حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل سے اس سلسلہ میں مشورہ کیا اور ان سے کہا کہ اے میرے پیارے بیٹے!میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں ذبح کررہا ہوں،اب سوچ کر بتاؤ کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ (یہ مشورہ صرف حضرت اسماعیل کے ایمانی جذبہ اور تعلق مع اللہ کا امتحان لینے کے لیے اور اللہ کے حکم کی تعمیل و انقیاد کا ذکر ان کی زبان سے سننے کے لیے تھا،اس لیے نہیں تھا کہ اگر وہ انکار کردیتے تو حضرت ابراہیم ان کی قربانی پیش کرنے سے رک جاتے) حضرت اسماعیل نے فورا عرض کیا کہ اباجان!آپ وہی کیجئے جس کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے، ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ہونہاربیٹے کا یہ جواب سن کرحضرت ابراہیم انہیں قربان گاہ (منٰی) لے گئے، وہاں جاکرانہیں پیشانی کے بل لٹادیااور گردن پرچھری رکھ کرخداکی بارگاہ میں ان کو ذبح کرنا چاہا، لیکن چھری اس قدرکندہوچکی تھی کہ حضرت اسماعیل کی رگیں نہیں کٹ رہی تھیں،حضرت ابراہیم اسی شش و پنج میں تھے کہ غیب سے آواز آئی”اے ابراہیم!تم نے خواب کوسچ کر دکھایا، یقینا ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں،یقینا یہ ایک کھلا ہوا امتحان تھا“،اس کے بعد حضرت جبرئیل ہابیل کے مینڈھے کو لیکر حاضر ہوئے اور فرمایا کہ اے ابراہیم! آپ کو اللہ تعالی نے اسماعیل کے بدلہ اس مینڈھے کو ذبح کرنے کا حکم دیا ہے،چنانچہ آپ نے اس مینڈھے کو ذبح کردیا۔حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کاطاعت واخلاص سے معمور قربانی کا عظیم عمل اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس قدر پسندیدہ اور محبوب ہوا کہ وہ ہمیشہ کے لیے طاعت و اخلاص کی علامت قرار پایا اور اس عمل کو امت محمدیہ (علی صاحبہا الف صلاۃ وسلام) کے صاحب استطاعت افراد پر رضاء الہی کے حصول کے لیے لازم کردیا گیا۔
قربانی کی اسی اہمیت کے پیش نظربندہ نے زیر نظر کتاب ترتیب دی ہے جس میں آسان اسلوب اور سہل اندازمیں قربانی کی مبادیات اور اس کے ضروری فروعی مسائل پر قرآن مجید،حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور فقہی کتابوں کی روشنی میں مدلل بحث کی گئی ہے اور قربانی سے متعلق تقریباتمام ضروری مسائل کو شرعی اور فقہی نصوص سے مزین کرکے پیش کیاگیا ہے۔واضح ہوکہ احادیث کا حوالہ دیتے وقت”جامع الکتب التسعہ“ (موبائل ایپ)کو پیش نظر رکھا گیا ہے اور اسی کی ترقیم کے مطابق حدیث نمبر لکھا گیاہے،اور فقہی کتابوں کا حوالہ دیتے وقت حتی المقدور عربی فتاوی کی بنیادی کتابوں کو مقدم رکھا گیاہے، نیزاخیر میں ”اہم مصادر ومراجع“ کے عنوان سے ان کتابوں کا نام مع مطبع کے ذکر کردیا گیا ہے،تاکہ حوالہ دیکھتے وقت قارئین کو کسی قسم کی دشواری نہ ہو، اللہ تعالی سے دعاگو ہوں کہ وہ اس کتاب کو اپنی بارگاہ میں قبولیت، میرے لئے نجات کا ذریعہ اورامت مسلمہ کے لئے مفیدبنائے،آمین یا رب العالمین!
مفتی رضوان نسیم قاسمی
استاذ فقہ و افتاء معہد الدراسات العلیا،پھلواری شریف پٹنہ
انڈین نمبر(8986305186)
نیپالی نمبر(9809191037)
فیس بکی دوست باخبر رہنے کے لئے ہمارا فیس بک پیج فالوو کرسکتے ہیں۔ شکریہ۔