Download (8MB)
اسلامی ناموں کا انسائیکلوپیڈیا
مرتب: امتیاز احمد
صفحات: ۳۲۱
ناشر: دار الاشاعت مصطفائی دہلی
ہر ذی شعور انسان اچھی چیز سے پیار کرتا ہے اور اچھے انجام کا خواہاں ہے، لہذا جس طرح اچھا نام رکھنے کی تلقین و تاکید نبی کریم ﷺ کی ہے، اسی قدر برے نام رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ نبی کریم اللہ کسی شخص کا نام دریافت دریافت فرما فرماتے وہ وہ نام اچھا ہوتا تو تو آپ ﷺ ﷺ کے کے چہرے پر خو خوشی کے آثار نظر آتے اور اگر مگر وہ ہوتا تو آپ ﷺ کے روئے مبارک پر کراہت کے آثار نمایاں ہوتے ۔ نبی کریم ناموں کے متعلق بھی اپنی رائے کا اظہار فرماتے تھے۔ آپ سے برے ناموں کو اچھے ناموں میں تبدیل فرمادیا کرتے تھے۔
جس طرح اچھے ناموں کے اچھے اثرات ہوتے ہیں۔ اسی طرح برے ناموں کے برے اثرات ہوتے ہیں ، یہ وجہ تھی کہ رسول کریم ﷺ اچھا نام رکھنے کی تلقین فرماتے اور اچھا نام سنتے تو خوش ہوتے ، جب کہ برا نام رکھنے سے منع کرتے اور برا نام سنتے تو کراہت فرماتے اور اسے تبدیل کر دیتے تا کہ اس شخص کی زندگی پر برے اثرات مرتب نہ ہوں ۔
جہاں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت بڑی بڑی نعمتوں سے نوازا ہے وہاں انسان کو اولاد جیسی نعمت سے بھی سرفراز فرمایا ہے، اس نعمت کی قدر کی صورت یہ بھی ہے کہ بچے کا اچھا نام رکھا جائے ، ایک ایسا نام جس میں شکر الہی کی جھلک ہو اور آئندہ بچے کی شخصیت کے لیے مفید ثابت ہو۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ “تم روز قیامت اپنے ناموں اور اپنے باپ کے ناموں سے پکارے جاؤ گے ، لہذا اپنے نام اچھے رکھو”۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا ! اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے اچھے نام عبداللہ اور عبد الرحمن ہیں ۔ اور سب سے سچے نام حارث اور ہمام ہیں ، اور سب سے برے نام حرب یعنی جنگ اور مرہ یعنی کڑوا ہیں ۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا ! کہ تم انبیاء والے نام رکھو۔ نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں ایک لڑکا لایا گیا۔ آپ نے اس کا نام دریافت فرمایا ! تو جواب ملا سائب یعنی آزاد اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا اس کا نام سائب کی بجائے عبداللہ رکھو، راوی کا بیان ہے کہ لوگوں نے اس بچے کا نام سائب ہی رہنے دیا ، جس کی وجہ سے وہ اس وقت تک نہیں مرا جب تک اس کی عقل نہ چلی گئی اور دیوانہ ہو گیا ۔
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر کی ایک صاحبزادی کا نام عاصیہ تھا ، نبی کریم ﷺ نے ان کا نام بدل کر جمیلہ رکھ دیا۔
نبی کریم ﷺ کے ارشادات کی روشنی میں ہم سب مسلمانوں کو پرکھنا
چاہیے کہ آیا ہم بھی اچھے ناموں اور اچھے مطالب کے ناموں کو اچھا سمجھتے ہیں یا کہ غیر مسلموں کی پیروی کرتے ہوئے جس طرح وہ لوگ اپنے بچوں اور بچیوں کے نام رکھتے ہیں کہیں ہم ان کی تقلید تو نہیں کر رہے۔
چونکہ مولود نے خود اپنا نام تجویز نہیں کرنا ہوتا ، لہذا یہ والدین اور قریبی رشتہ داروں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی بتائی ہوئی تعلیمات کی روشنی میں مولود کا اچھا اور مطلب کے اعتبار سے بہترین نام رکھیں ۔
ہمارے موجودہ دور میں بعض حضرات سے اس قدر عزت و احترام برتا جاتا ہے کہ اسلام کے نظریات اور تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بعض نام نہاد ، پیر اور مولویوں کے بتائے ہوئے ناموں کو اس قدر اہمیت دی جاتی ہے، چاہے اس سے ہمارے اکابرین کی توہین کا پہلو نکلتا ہو۔ مثال کے کے طور پر پیر یا مولوی صاحب کو تجویز کردہ نام کے متعلق پوچھا جاتا ہے، آیا یہ مولود کے لیے آئندہ زندگی میں بہتر ثابت ہوگا یا نہیں، تو پیر یا مولوی صاحب علم الاعداد کی روشنی میں نام کو پرکھتے ہیں اور اچھا یا برا شگون بتاتے ہیں ، اگر چہ نام کسی صحابہ یا صحابیات کے نام پر ہی کیوں نہ ہو، اور ان شخصیات کا تعلق نبی کریم ﷺ سے قریبی رشتہ دار یا ساتھی کی حیثیت سے ہی ہو۔
اولاً تو علم الاعداد میں نام کی مطابقت کو ڈھونڈ نا غیر شرعی طریقہ ہے اور ہم مسلمانوں کو اس قسم کی ضیعف الاعتقادی سے سختی سے پرہیز کرنا چاہیے اور اپنے قرب و جوار میں مسلمانوں کو اس سے بچنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ خاص طور پر نبی کریم ﷺ کے قریبی صحابہ اور امہات المومنین، صحابیات کے نام پر نام رکھنے میں ذرہ برابر بدشگونی اور دو دلی سے گریز کرنا چاہئے ، ان تمام اصحاب کے نام با برکت اور باعث رحمت ہیں، اور اگر ان شخصیات کے ناموں میں خدانخواستہ کوئی کمی ہوتی تو نبی کریم ﷺ ان کو تنبیہ فرما دیتے ۔ جیسا کہ پہلے ہم ذکر کر چکے ہیں کہ کسی شخص کے نام کا مطلب ٹھیک نہ ہوتا تو نبی کریم نے اس کو اچھا نام رکھنے کی تلقین فرما دیتے اور اچھا نام بھی تجویز کر دیتے۔ اس لیے ہمیں چاہیے انبیاء، صحابہ کے نام پر نام رکھنے سے پہلے کسی نام نہاد پیر یا مولوی سے علم الاعداد کی روشنی میں اچھا یا برا شگون لینے کی طرف بالکل دھیان نہیں دینا چاہیے، بے دھڑک ہو کر ان شخصیات کے نام پر نام رکھنا چاہیے۔
موجودہ دور میں ایک افسوسناک صورت حال یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ بعض ذی شعور اور سمجھ دار لوگ اچھے بھلے نام کو بگاڑ کر پکارتے ہیں، جس کی وجہ سے پکارنے والے کو دکھ پہنچتا ہے بلکہ دوسرے ملنے والوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر اقبال کو بالا ، اسماعیل کو سیلا اور محمود کو مودا پکارا جاتا ہے، اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سورۃ الحجرات میں فرمایا ہے “اور ایک دوسرے کا برا نام نہ رکھو۔ ایمان لانے کے بعد برا نام
رکھنا گناہ ہے”۔
مسلمان ہونے کے ناطے ہم سب کو ایک دوسرے کو اچھے نام سے پکارنا چاہیے کیونکہ اس کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا! تم میں سے بہترین مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ۔۔ عام فہم میں بھی اگر مخاطب کو اچھے القاب سے پکارا جائے تو وہ ضرور آپ کی بات کو سنے گا اور اگر ممکن ہو سکے ہو تو آپ کے کام کو اچھے طریقے سے انجام دے گا۔ بعض لوگ بچوں کے نام علم الایام کی مدد سے رکھتے ہیں ، یعنی پیدائش کے دن کی مناسبت سے نام تجویز کیا جاتا ہے اس کا دارو مدار محض تخمین و قیاس پر ہے اور قرآن یا حدیث سے کوئی تعلق نہیں ۔
کہا جاتا ہے کہ ہفتہ کے دن پیدا ہونے والا بچہ زیادہ تر رنج و غم میں مبتلا رہے گا، اتوار کے دن پیدا ہونے والا دولت مند ، عقلمند اور لمبی عمر پائے گا، پیر کی پیدائش والا مستقل مزاج نہ ہوگا ، اس لیے کامیاب نہ ہوگا، البتہ نیک – سیرت ہو گا، منگل کو پیدا ہونے والا زیادہ غصہ کرنے والا ہوگا، جوانی میں بد چلن ہوگا ، بدھ کے دن پیدا ہونے والا ، پڑھنے والا ہو گا، جمعرات کو پیدا . ہونے والا عزت و دولت پائے گا، اور جمعہ کو پیدا ہونے والا خوش نصیب اور
قوی ہوگا۔
حالانکہ حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے اور مختلف دنوں میں پیدا ہونے۔ والے لوگوں میں ملتی جلتی عادات اور اطوار پائے جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں موجود بعض لوگ علم نجوم کی مدد سے بچوں کے نام رکھتے ہیں، یعنی ستاروں اور سیاروں کی مدد سے قسمت معلوم کی جاتی ہے اور دعوی ہے کہ کواکب کی تاثیرات ( جو کائنات میں رونما ہیں) سے مستقبل کے واقعات کا علم حاصل کیا جاتا ۔ ہے۔ آئندہ کے لیے ہونے والے واقعات کی پیش گوئی کی جاتی سکتی ہے۔ اور ستاروں کی گردش کے کچھ ایسے خواص ہوتے ہیں جو انسانی زندگی کے بہت سے معاملات پر اثر انداز ہوتے ہیں کسی ستارے کا حرکت کر کے کسی برج میں سفر ایک انسان کے لیے خوشی اور کامیابی کا ذریعہ ہو سکتا ہے اور کسی دوسرے شخص کے لیے غمی اور نا کامی کا باعث ہو سکتا ہے۔ اس لیے بعض کمزور عقیدہ لوگ نجومیوں سے اپنا ستارہ معلوم کرتے ہیں اور مستقبل کے حالات کے متعلق پوچھتے ہیں۔ : اسی طرح کی تو ہمات رسالوں اور میگزینوں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ “آپ کا ہفتہ کیسا رہے گا“ کے کالم سے آئندہ دنوں میں ہونے والے حالات کے بارے میں پیشگوئیاں معلوم کرتے ہیں۔ اور شد و مد سے اپنی راہ متعین کرتے ہیں۔ جو کہ باطل نظریہ ہے اور مسلمانوں کو اس سے بچنا چاہیے۔ اس لیے قارئین کو نبی کریم ﷺ کا وہ فرمان نہیں بھولنا چاہیے جو آپ نے حدیبیہ کے مقام پر رات کو بارش ہوئی تو صبح کو فرمایا ! کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ صحابہ نے کہا اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ تو آپ نے فرمایا ! اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ میرے بندوں نے اس حال میں صبح کی ہے کہ کچھ میرے ساتھ ایمان لائے اور کچھ نے میرے ساتھ کفر کیا، جس نے کہا ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے بارش ملی تو وہ میرے ساتھ۔ ایمان لانے والا ہے اور ستاروں کے ساتھ کفر کرنے والا ہے اور جس نے کہا نے کہا کہ فلاں ستارے کی بدولت بارش ملی ہے تو وہ ستاروں پر ایمان لانے والا ہے اور میرے ساتھ کفر کرنے والا ہے۔ قرآن و حدیث کے مطالعہ سے ستاروں کے متعلق جو مقاصد بزرگوں نے ذکر کیے ہیں اس میں ستاروں کو آسمان کی زینت ، خشکی و سمندر میں راستوں کی تلاش اور شیاطین کو سزا دینے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔
ہمارے معاشرے میں ان لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو کہ علم رمل، علم جفر، اور علم فال کی مدد سے نام رکھتے ہیں اور کبھی طوطے کی چونچ کو اپنی قسمت کا معیار سمجھتے ہیں یعنی طوطے نے جو کاغذ اپنی چونچ سے اٹھا دیا اس کو اپنی قسمت اور نام سے منسوب کرتے ہیں۔ اور اس پر یقین کرتے ہیں ۔ حالانکہ ان چیزوں کا اسلام کی تعلیمات سے تو کیا عام طور پر انسان کی فطرت بھی اس سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی ۔
علم رمل کو حضرت ادریس ؑ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور بعض خطوط زمین پر کھینچ کر پیش گوئی کی جاتی ہے جس سے قسمت اور نام معلوم کیے جاتے ہیں۔ علم جعفر کے متعلق بعض لوگوں کا دعوی ہے کہ کر بلا میں پیش آنے والے واقعات اور چند قواعد ضرور یہ حضرت علیؓ نے لکھ دیتے تھے جو من وعن رونما ہوئے ، وہی قواعد علم جفر کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں اور موجد علم حضرت جعفر کو قرار دیتے ہیں۔ مگر ان تمام باتوں میں کوئی سند نہیں اور بے بنیاد ہیں۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ قرآن و سنت اور حدیث کو چھوڑ کر ہم کسی اور معیار کو اولاد کا نام رکھنے میں اپنائیں گے تو اس میں سراسر خرابی، نحوست اور باعث لعنت ہے، اور اسلامی طریقوں میں خیر و برکت ہے اس لیے اولاد کا نام رکھنے سے پہلے ہمیں اسلامی طرز کو ملحوظ رکھنا چاہیے اور معاشرے میں رائج غیر شرعی طریقوں سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے اور بیان کردہ تمام باطل طریقوں کو رد کرنا چاہیے اور اپنے مسلمان بھائیوں کو اس کی تلقین کرنی چاہیے تا کہ مستقبل میں ہماری اولاد باعث شر ثابت نہ ہو۔
اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ ہم سب مسلمانوں کو اسلام کا فہم عطا کرے اور عمل کرنے کی توفیق عطا کرے ، آمین