Download(12MB)
ضیاء السنن شرح اردو مقدمہ ابن ماجہ (باب اتباع سنۃ رسول اللہ ﷺ تا ابتداء ابواب الطہارۃ)۔
شارح: حضرت مولانا مفتی اسعد قاسمی صاحب مراد آبادی
صفحات: ۵۹۳
اشاعت: ۲۰۰۶
ناشر: دار الکتاب دیوبند
عرض مؤلف
سنن ابن ماجہ حدیث کی نہایت اہم اور وقیع کتاب ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال، سیرت و کردار اور نبوت کے کارناموں کو مدون کرنے کے لئے قرون اولی میں جو بلند مقام کتابیں لکھی گئیں، امت مسلمہ ان کے مجموعہ کو صحاح ستہ کے نام سے یاد کرتی ہے اور انہیں کتاب اللہ کے بعد آج بھی دین کا سب سے بڑا سر چشمہ تصور کیا جاتا ہے، ابن ماجہ اسی سنہری زنجیر کی آخری کڑی ہے جو حسین ترتیب، البیلے آغاز اور جامع مقدمہ کی بناء پر اہل علم سے ہمیشہ خراج تحسین وصول کرتی رہی ہے، درس و تدریس کے حلقے ہوں یا شرح و تعلیق کی بزم سجی ہو، ہر دور میں محدثین نے اسے حرزجاں بنا کر بحث و تحقیق کے زیور سے آراستہ کیا ہے، زمانہ کی دست برد سے گرچہ یہ تمام کاوشیں آج محفوظ نہیں ہیں لیکن ان کا جتنا حصہ بھی ہم تک پہنچا ہے وہ بھی الحمد للہ اتنی وافر مقدار میں ہے کہ حدیث وسنت کے کارواں صدیوں تک اس سے روشنی حاصل کر سکتے ہیں، کتاب کے مقدمے میں ہم نے ایسی ۲۵ شروحات کا پتہ دیا ہے کہ جن کا بہت تھوڑا حصہ اب بھی استفادے کے لئے دستیاب ہے جب کہ بڑی تعداد میوزیم اور مخطوطات میں رکھی ہماری بے اعتنائی کا شکوہ کر رہی ہے اس لئے سردست ابن ماجہ پر ایسے کام کی ضرورت تھی جو شرح و تفہیم کے ساتھ ان تمام تحقیقات سے بھی آراستہ ہو جو محدثین نے بطور امانت ہمارے لئے ورثہ میں چھوڑی ہیں۔
اسی ضرورت کا احساس کر کے راقم نے “مصباح الزجاجۃ” کے نام سے طالب علمی کے زمانہ میں سنن ابن ماجہ کی ایک شرح لکھی تھی اس میں صرف مشکل احادیث اور اہم مقامات کو حل کیا گیا تھا، یہ گرچہ ایک ابتدائی کوشش تھی اور اس میں زیادہ پختگی بھی نہ تھی لیکن مقدمے کی مکمل شرح نہ ہونے کی بناء پر وہ بہت مقبول ہوئی اور مختصر عرصے میں اس کے کئی ایڈیشن نکل گئے ، راقم کا خیال اسے شروع ہی سے دوبارہ مرتب کرنے کا تھا تا کہ وہ نصاب کے تمام ابواب و احادیث کو شامل ہو سکے، لیکن جب تدریس کا آغاز ہوا تو چند سال ارادہ ہی میں گزر گئے “امام مہدی ۔ شخصیت و حقیقت” سے فراغت کے بعد کسی طرح ہمت کو جمع کرکے کام شروع کیا اور اللہ کے فضل سے شبانہ روز جد و جہد کی بدولت تین سال میں اس کی تکمیل ہوگئی، ایک سال پھر طباعت کی فکر میں گذارا جب کہ دوسرے سال حاسدوں کی ریشہ دوانیوں اور بعض نا خدا ترس حضرات کی شرارتوں نے کچھ عرصے تک ادھر توجہ کرنے کی بھی مہلت نہیں دی، اللہ بڑا رحیم و کریم ہے، اس نے دل مضطرب کی ہمیشہ سنی ہے چنانچہ مولا نے جب دوبارہ سکون خاطر نصیب فرمایا تو معا مجھے اس محبوب مشغلہ کی یاد آئی جو دل کو فرحت و نشاط عطا کر کے روح کو تازگی بخشا تھا ، شرح کی تکمیل پر دو سال گذر چکے تھے سوچا کیوں نہ ایک نظر اور ڈال لی جائے تا کہ غلطیاں کم سے کم اور افادہ زیادہ سے زیادہ ہو سکے، بس یہی فیصلہ تاخیر کا سبب بن گیا اس میں پھر خامیاں نظر آئیں، ان کا تعاقب کیا تو یہ سفر بھی ڈیڑھ سال تک جاری رہا، منزل پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ مسودے کو ۹۰ فیصد از سر نو مرتب کر چکا ہوں اور کتاب اب نقش دوم سے نقش سوم میں تبدیل ہو چکی ہے۔
اس طرح یہ آٹھ سالہ کاوشوں کا ثمرہ ہے جس میں ابن ماجہ کی موجودہ تمام تخریجات و تعلیقات کے علاوہ ہم نے دوسری شروحات وحواشی سے بھی بھر پور استفادہ کیا ہے شرح کے دوران بنیادی کوشش اختصار، جامعیت اور تسہیل کی رہی ہے، روایت کا پس منظر، منتشر طرق کی تلاش ، مشکل الفاظ کی لغوی و اصطلاحی تشریح، پیچیدہ ترکیبوں کا تجزیہ، محدثین کے فرمودات کی نقل و توجیہ، منشاء نبوت کی تفصیلی وضاحت، حدیث کی تخریج اور ہر سند کی تحقیق ہماری کتاب کے عناصر ترکیبی ہیں ، حوالہ صفحات کے بجائے ہم نے کتاب اور باب کا دیا ہے جو استخراج میں بہت سہولت پیدا کر دیتا ہے، مثلاً جب بخاری ایمان (۳۶) لکھا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ حدیث کتاب الایمان کے باب نمبر ۳۶ میں ملے گی ، صحاح ستہ کے تمام حوالے اسی نوعیت کے ہیں جب کہ مرقات المفاتیح میں کتاب کے بعد فصل اور حدیث نمبر کی نشاندہی کی گئی ہے، اور تقریب التہذیب میں راقم نے رواۃ کا نمبر شمار لکھا ہے، علامہ سندھی کی عبارتوں کا حوالہ نہیں دیا گیا کیونکہ وہ سب سنن مصطفیٰ سے ماخوذ ہیں ، اس کے علاوہ دیگر حوالوں میں جلد اور صفحہ نمبر کی رعایت ہے ، ضعیف روایات کے ذیل میں سند پر قدرے تفصیلی کلام ہے، اور کوئی متن روایتا و درایتا موضوع قرار پاتا ہے تو اس کی شرح و توجیہ کے گناہ سے اللہ نے ہمیں محفوظ رکھا ہے۔۔۔۔۔