Download (4MB)
تاریخ کے جھروکے سے ایک بصیرت افروز خطاب
از: حضرت مولانا اسرار الحق صاحب قاسمی مدظلہ العالی (صدر ملی کونسل و ممبر آف پارلیمنٹ)
مرتب: محسن بن قاری یوسف را ندیری (خادم التدریس جامعہ حقانیہ کٹھور، سورت، گجرات)
صفحات: ۳۴
عرض مرتب
حضرت مولانا اسرار الحق صاحب قاسمی دامت برکاتہم العالیہ کی ذات گرامی سے کون نا واقف ہوگا ۔ آپ دارالعلوم دیو بند کے عظیم سپوت ، حضرت مولانا مفتی مظفر حسین صاحب کے خلیفہ مجاز نمونۂ اسلاف ، پیکر تواضع ، دریائے علم و معرفت کے شناور تعلیم و ترقی کا روشن مینار، کوچہ عشق و وفا اور درد محبت سے آشنا ہونے کے ساتھ اسلامی سیاست کا روشن ستارہ و نیر تاباں اور ممبر آف پارلیمنٹ ہیں ، آپ کی آہنی ہمت وارادہ اور فولادی عزم و حوصلہ کے سامنے حکومتیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتی ہیں، آپ کی ذات سچی سیاست اور صاف ستھری و بے داغ جمہوریت کی سچی تصویر ہے، سینہ میں دھڑکتا پھڑکتا ہوا ایسا دل رکھتے ہیں جو غریبوں، مسکینوں، بیواؤں ، اپاہجوں ، ضرورت مندوں اور سماج کے ان پڑھ اور پچھڑے ہوئے لوگوں کے درد کو محسوس کرے ، ان کا غم کھائے ، ان کی اشک سوئی کرے، اور ان کے درد کا درماں اور ان کی تکلیفوں کے حل کرنے کا راستہ تلاش کرے اور اسی لیے حضرت والا دامت برکاتہم ملک بھر میں تقریبا ڈھائی لاکھ دیہاتوں کا بذات خود سفر کر چکے ہیں اور دامے درے قدمے سخنے خدمت فرمارہے ہیں اور اپنے مفید مشوروں اور خطاب و بیان سے نوازتے رہتے ہیں۔
منجملہ ان خطابات کے ایک وہ قیمتی اور سحر انگیز خطاب بھی ہے جو مفکر ملت حضرت مولانا عبداللہ کا پودروی رامت برکاتہم العالیہ کے دولت کدہ پر مختلف مدارس سے تشریف لائے ہوئے ممتاز علمائے کرام کے درمیان آپ نے فرمایا تھا، جو پوری ملت کے لیے عموماً اور علمائے کرام کے لیے خصوصا عظیم تحفہ اور زاد راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ احقر کے دل میں داعیہ پیدا ہوا کہ اسے مستقل رسالے کی شکل دی جائے چنانچہ میں نے اس سلسلے میں حضرت الاستاذ مشفقی و مربی مولانا عمران صاحب خان پوری مدظلہ العالی ( استاذ حدیث دار العلوم فلاح دارین ترکیسر ) سے مشورہ کیا تو آپ نے بہت ہی حوصلہ افزائی فرمائی اور مفید مشوروں سے بھی نوازا بلکہ تہذیب و تنقیح فرما کر اور تحریری شکل دے کر اشاعت کے قابل بنایا۔ احقر اس ذرہ نوازی پر حضرت والا کا نہایت ہی شکر گزار ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی شانِ کریمی سے بہترین بدلہ عنایت فرمائیں ( آمین ) نیز اس موقع پر احقر حضرت مولانا صادق صاحب خیر آبادی (استاذ حدیث جامعہ حقانیہ کٹھور) کا بھی شکر گزار ہے جنھوں نے عنوان سازی میں بندہ کی مددفرمائی۔ نیز بندہ سپاس گزار ہے ان تمام حضرات کا ، جن کے تعاون سے یہ رسالہ منصہ شہود پر آیا۔ فجز اہم اللہ احسن الجزاء۔ تقدیر کی کرشمہ سازی سے حضرت والا سے اجازت اور نظر ثانی کا مرحلہ یوں آسان ہو گیا کہ اسی دوران حضرت والا کی بذات خود گجرات تشریف آوری ہوگئی تو بندہ مسودہ لے کر خدمت عالی میں حاضر ہوا اور نظر ثانی فرمانے کی درخواست کی ۔ حضرت والا نے انتہائی فرحت و انبساط کا اظہار فرمایا اور حوصلہ افزائی فرمائی اور مسودہ اپنے ہمراہ لے گئے تا کہ اطمینان سے دیکھ سکیں۔ حضرت مولانا نے نہ صرف یہ کہ رسالہ کو بنظر غائر دیکھا بلکہ مزید کرم یہ فرمایا کہ عنوان کی مناسبت سے آزادی ہند کی تاریخ سے متعلق وقیع اور مفید اضافہ بھی فرمایا جس سے رسالہ کی جامعیت اور افادیت کو چار چاند لگ گئے ۔
اللہ تعالیٰ اس رسالہ کو ہم سب کی اصلاح کا ذریعہ بنائے اور اس کاوش کو شرف قبولیت بخشے، اس کے پاکیزہ اور مثبت نتائج مرتب فرمائے اور احقر کے والدین، اساتذہ اور مشائخ و دیگر معاونین کیلئے صدقہ جاریہ اور ذریعہ مغفرت و نجات بنائے ۔ (آمین، بحرمة سید المرسلین )۔۔۔ مرتب
فیس بکی دوست باخبر رہنے کے لئے ہمارا فیس بک پیج فالوو کرسکتے ہیں۔ شکریہ۔