Download (1MB)
اسباب فسخ نکاح
جن اٹھارہ 18 وجہ سے قاضی نکاح تو ڑ سکتے ہیں، ان کا ذکر ہے اور تمام کے لئے آیتیں اور حدیثیں ہیں
مؤلف: حضرت مولانا ثمیر الدین قاسمی صاحب دامت برکاتہم
نگران: مولانا مسلم قاسمی سینپوری
طباعت با راول: مارچ ۲۰۱۲ء
صفحات: ۷۶
ناشر: مکتبہ ثمیر ، مانچیسٹر ، انگلینڈ
ایک زمانہ تھا کہ اسلامی حکومت تھی اگر عورت کو شوہر کوئی تکلیف دیتا تو قاضی فورا اس کی داد رسی کرتا اور شوہر سے اس کا حق دلواتا ، نفرت اور لڑائی کے باوجود عورت کو یہ خوف نہیں ہوتا کہ یہ مجھے جان سے مار دیگا ، یا اتنا پریشان کر دیگا کہ عورت کی زندگی دو بھر ہو جائے گی ، اس لئے شوہر کے گھر میں رہنے میں کوئی پریشانی محسوس نہیں کرتی لیکن اس وقت صورت حال بالکل مختلف ہے، کہیں بھی ایسا قاضی نظر نہیں آتا جو بر وقت دادرسی کر سکے، اور عورت کی جان محفوظ رکھ سکے، اس لئے نفرت کے بعد کوئی گرانٹی نہیں ہے کہ وہ شوہر کے گھر میں سکون سے زندگی گزار سکے گی ، اس لئے نفرت کے بعد عورت کو شوہر گھر میں بھیجنا ایک مشکل کام ہے۔ اس لئے تفریق کا فیصلہ نہ بھی کرے تو عورت کو شوہر کے گھر میں بھیجنے کی ذمہ داری کوئی نہیں لے گا، کیونکہ عورت کو کوئی نقصان ہوا تو اس ذمہ دار کو سالوں کورٹ کا دھکا کھانا پڑے گا۔
الف۔ دوسری طرف یورپ میں طرفہ تماشہ یہ ہے کہ
ہر انسان کو خوشی سے جینے کا حق Human Right
ہے اس کے تحت عورتیں حکومت کے ذریعہ سے
شوہر کو قریب آنے سے روکنے کا حق Restraining order
لے لیتی ہیں ، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے چاہے عورت کی غلطی نہ بھی ہو پھر بھی شوہر عورت کے گھر کے قریب بھی نہیں آسکتا ، عورت کے گھر سے 500 پانچ سو میٹر دور دور ہی رہنا ہوگا، اگر وہ اس کی خلاف ورزی کرے گا تو حکومت سیدھا جیل میں دھکیل دیگی۔ ایسی صورت میں بیوی کو
شوہر کے گھر پر جانے کا فیصلہ کیسے کوئی کر سکتا ہے۔
ب۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ شوہر کے گھر میں رہتے ہوئے بیوی جج سے اپنے اوپر ہاتھ نہ لگانے کا حق حاصل کر لیتی ہے جسکو
Non-Molestation order
کہتے ہیں جسکی وجہ سے بیوی رہتے ہوئے بھی شوہر بیوی سے ازدواجی رابطہ نہیں کر سکتا، ایسی خطرناک صورت میں تفریق نہ کریں تو کیا کیا جائے۔
ج۔ یہ صورت بھی بنتی ہے کہ بیوی انگریز حج سے
Separation ( علیحدگی)
لے لیتی ہے یا
Decree absolute
کر والیتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ حکومت کے یہاں میاں بیوی نہیں رہے، اور دوبارہ واپس بھی جائے تو بہت مشکل ہے، اکثر مرتبہ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ عورت کی جان کو خطرہ ہے، اس لئے رضامندی سے شوہر کے یہاں جانا بھی چاہے تو پولیس جانے نہیں دیتی ، ایسی صورت میں اگر تفریق نہ بھی کرے تو کیا کرے، کب تک کی عورت لٹکتی رہے گی۔
د۔ بارہا یہ دیکھا گیا ہے کہ چاہے شرعی طلاق نہ ہوئی ہو پھر بھی وہ کسی مرد کے ساتھ میاں بیوی کی طرح رہنے لگتی ہے، اور زندگی بھر معصیت میں مبتلا رہتی ہے، اور چونکہ دیندار نہیں ہوتی اس لئے اس کی پرواہ بھی نہیں کرتی۔
ھ۔ خاندان والے، یا کوئی آدمی کہہ بھی نہیں سکتا ، کیونکہ حکومت عورت کا ساتھ دیتی ہے ، حکومت کا نظریہ ہے کہ یہ عورت کا ذاتی حق ہے کہ وہ کسی کے ساتھ بھی زندگی گزارے، اس میں والدین، یا کوئی دخل انداز نہیں ہو سکتے ، اب عورت دیندار نہیں ، اس کو کوئی کچھ کہہ بھی نہیں سکتا ہے تو تفریق نہ کرے تو آخر کیا کرے۔
و۔ پھر یورپ کے میڈیا اور ٹیلی ویژن والے ایسے مسئلے کو بہت اچھالتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ دیکھئے مسلمان عورتوں پر ظلم کرتا ہے۔ بعض مرتبہ اتنا پیچھا کرتے ہیں کہ اسلام کو بدنام کر کے چھوڑتے ہیں۔
ز۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ مثلا انگلینڈ کی عورت نے پاکستان میں شادی کی لیکن حکومت ویزا نہیں دیتی ہے، اور ایسی قانونی خامی ہے کہ آئندہ ویزا دینے کی امید بھی نہیں ہے، اور عورت پاسکتان میں جا کر رہنا نہیں چاہتی، کیونکہ انگلینڈ میں بڑی سہولت ہے، اب ایسی صورت میں کب تک عورت گزارہ کرے گی۔
یورپ کے ان تمام صورت حال کو سامنے رکھ کر یہ کتاب لکھی جا رہی ہے، تاکہ اس کے ذریعہ میڈیا کی بدنامی سے بھی بچا جائے اور مجبور عورت کو زندگی گزارنے کا سہارا مل جائے۔