Download (2MB)
الفاظ طلاق کے اصول
الفاظ طلاق سے متعلقہ اصولوں کی تنظیم تشریح
مصنف: مفتی شعیب عالم استاذ و معاون مفتی جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
صفحات: ۱۷۷
ناشر: مكتبۃ السنان ، کراچی
نکاح زندگی بھر کے بندھن کا نام ہے، یہی بقائے انسانی کا حلال روحانی راستہ ہے، یہ محبتوں کا رشتہ ہے، جو ضابطوں کی بجائے رابطوں سے نبھاتے رہنا چاہیئے اور عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کی زندگی میں مختلف مشکلات اور دشواریاں بھی آتی رہتی ہیں، جنہیں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں، مردانہ وار ہمت و حوصلہ سے سر کرنا ہوتا ہے، مگر کبھی انسانی ہمت، فطری ضعف کی نذر ہو جایا کرتی ہے، ایسے مشکل مرحلے میں بھی اگر اسلامی تعلیمات کا سہارا لیا جائے تو اسلامی تعلیمات کی روحانیت کی بدولت مسلمان ، روحانی سکون اور نفسیاتی راحت سے ہم کنار رہتے ہوئے
ان مشکل گھڑیوں میں سرخرو ہو جایا کرتا ہے۔
نکاح کا دائمی بندھن اگر اپنے حقوق و آداب کے ساتھ قائم نہ رہ سکے تو اسے قائم رکھنے کے لیے مختلف شرعی، اخلاقی اور معاشرتی ضوابط و روابط بروئے کار لانے کا حکم دیا گیا ہے، اگر جوڑ کی ساری تدابیر غیر مؤثر ہو کر رہ جائیں تو شریعت اسلامیہ نے آخری حل کے طور پر انتہائی ناگواری اور ناپسندیدگی کے ساتھ ابغض الحلال کہہ کر مرحلہ وار طلاق کا مختصر راستہ بھی کھلا چھوڑا ہے، تاکہ بوقت ضرورت ازدواجی مشکلات کو حل کرنے یا ایسی مشکلات سے نکلنے کے لیے یہ طلاق کا راستہ ایک ترتیب سے اختیار کر لیا جائے ، مگر افسوس کہ اسلامی تعلیمات سے دوری اور بے تکی جذباتیت کے نتیجہ میں بعض مسلمان اس آخری حل کو اولین حل کے طور پر استعمال کرنے لگے ہیں، اس ضرورت کے راستے کو معمول کا راستہ بنانے لگے ہیں اور طلاق کو تنبیہ و تذکیر کی گنجائش کے باوجود آخری ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے لگے ہیں ۔ اس پر مزید طوفان اس صورت میں بپا ہو جاتا ہے جب ”طلاق“ کے لیے طلاق کے الفاظ کے چناؤ میں ایسی غلطی سرزد ہو جاتی ہے کہ جس کا تدارک عمر بھر کے پچھتاوے کے علاوہ کسی اور صورت میں ممکن نہیں رہتا ، ایسے لوگ خود تو پریشان ہوتے ہی ہیں ، ساتھ ساتھ اپنی پریشانی میں اندھے ہو کر طلاق کے الفاظ اور بیان میں گڈ مڈ کر کے صورت مسئلہ کو بھی مشتبہ بنا دیتے ہیں ، جس سے مفتی صاحبان بھی پریشان ہو جاتے ہیں اور بیان کی غلطی ، فتوی کی غلطی کا سبب بن جاتی ہے۔
ایسے ماحول میں اگر عوام الناس اپنی علمی، عملی اور جذباتی غلطیوں کی اصلاح پر توجہ نہ دیں اور اپنی غلطیوں سے باز نہ آئیں تو کم از کم اہل فتوی کو بھر پور تحفظ کی ضرورت ہے کہ وہ بھر پور تنقیح کے بعد صورت مسئلہ میں جہت حکم کی بنیاد متعین کریں ، اس کے بعد طلاق کے لیے استعمال کردہ الفاظ میں غور کریں اور فقہائے کرام نے ان الفاظ کے احکام کے بیان کے لیے جن اصولوں کی رعایت کو لازمی قرار دیا ہے، ان کا پاس و لحاظ بھی رکھا جائے ، تا کہ اہل فتوی ، بیان حکم میں غلطی سے محفوظ رہ سکیں ۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے ہمارے دار الافتاء کے مستعد، باتوفیق اور باہمت رفیق، نوجوان فاضل مولانا مفتی شعیب عالم حفظہ اللہ کو، جنہوں نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے اس گنجلک موضوع کو متعلقہ اصول کی روشنی میں اہل علم کے غور وفکر کے لیے منفتح و مرتب کرنے کی قابل قدر کوشش کی ہے۔۔۔۔ مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر رحمہ اللہ تعالی