Wilayat e Nikah Islami Nuqta e Nazar By IFA ولایت نکاح

 

Read Online

Wilayat e Nikah - ولایت نکاح

Download (8MB)

Link 1      Link 2

ولایت نکاح اسلامی نقطہ نظر
ترتیب: حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی
صفحات: ۶۳۸
طبع دوم: جنوری 2011
ناشر: ایفا پبلیکیشنزنئی دہلی

نکاح میں ولایت کے مسائل
مجمع الفقہ الاسلامی الہند کے گیارہویں سمینار منعقدہ ۱۷ تا ۱۹ اپریل ۱۹۹۹ء کی طرف سے موضوع ولایت نکاح کی بابت شرکائے سمینار کے درمیان بحث و مباحثہ کے بعد درج ذیل تجاویز پاس کی گئیں ۔

نمبر ۱: شریعت اسلامیہ میں ولایت نکاح کا مفہوم یہ ہے : کسی کو دوسرے کے عقد نکاح کا اختیار حاصل ہونا ۔
اس کی دو صورتیں ہیں : ۱۔ ولایت اجبار، ۲۔ ولایت استحباب۔
ولایت اجبار : ایسا اختیار جو دوسرے کی رضا مندی پر موقوف نہ ہو۔
ولایت استحباب : ایسا اختیار جو دوسرے کی رضا مندی پر موقوف ہو۔
شرعا ولی کے لئے حسب ذیل صفات ضروری ہیں :
دماغی توازن کا درست ہونا ، بالغ ہونا ، آزاد ہونا، وراثت کا استحقاق ہونا، مسلمان ہونا۔

نمبر ۲: اولیاء کی ترتیب عصبات میں وراثت کی ترتیب کے مطابق ہے۔
ہر عاقل و بالغ کو خواہ مرد ہو یا عورت خود اپنا نکاح کرنے کا حق حاصل ہے، اور جو بالغ نہیں یا جس کا دماغی توازن صحیح نہ ہو تو ان کے نکاح کا اختیار اولیاء کو حاصل ہے اور اس سلسلہ میں لڑکی و لڑکے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
نمبر ۳: عاقلہ بالغہ لڑکی کو ولی کی مرضی کے بغیر خود اپنا نکاح کرنے کا حق حاصل ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ اولیاء اور لڑکی کی رضا مندی سے نکاح ہو۔
نمبر ۴: عاقلہ بالغہ لڑکی اپنے نکاح میں کفاءت یا مہر کے مطلوبہ معیار کا لحاظ نہ کرے تو اولیاء کو قاضی کے ذریعہ تفریق کا حق حاصل ہوگا۔
نمبر ۵: (الف) جس لڑکی کا نکاح باپ یا دادا نے نا بالغی میں کر دیا ہو وہ نکاح لازم ہے، الا یہ کہ وہ لڑ کی اس وجہ سے اس نکاح کو پسند نہ کرے کہ باپ دادا نے اس کا نکاح کسی لالچ میں آکر یالا پرواہی سے کام لے کر یا بد تد بیری کے ساتھ کر دیا ہے، یا ولی اعلانیہ فاسق ہے تو اس کو قاضی کے ذریعہ حق تفریق حاصل ہے۔
ب۔ باپ اور دادا کے علاوہ دوسرے اولیاء کا کرایا ہوا نکاح درست ہے، البتہ اگر لڑکی اس نکاح پر مطمئن نہ ہو تو بوقت بلوغ اس کو نکاح فسخ کرانے کا حق حاصل ہوگا۔
ج۔ کنواری لڑکی کے لئے اس حق ( خیار بلوغ) کا استعمال بوقت بلوغ ضروری ہے بشر طیکہ بلوغ سے پہلے اس کو نکاح کا علم ہو چکا ہو اور حکم شرعی کا بھی علم ہو ، بصورت دیگر اس کو یہ اختیار نکاح کا علم ہونے تک یا مسئلہ کا علم ہونے تک باقی رہے گا۔
د۔ شوہر دیدہ یعنی ثیبہ لڑکی کو یہ حق ( خیار بلوغ) اس وقت تک حاصل رہے گا جب تک کہ اس کی طرف سے رضا مندی کا اظہار نہ ہو، خواہ یہ اظہار صراحت ہو یا قرائن کے ذریعہ۔ اسی طرح یہ حق و اختیار اس وقت تک رہے گا جب تک کہ اس کو مسئلہ کا یا نکاح کا علم نہ ہو۔
نمبر ۶: ( الف ) ایک سے زائد یکساں درجہ کے اولیاء موجود ہوں تو جو ولی پہلے نکاح کر دے اس کا نکاح صحیح ہے۔
ب۔ اور قریب تر ولی کی موجودگی میں نسبتا دور کا ولی نابالغ لڑکی یا لڑکے کا نکاح کر دے تو قریب تر ولی کی اجازت پر موقوف ہوگا، البتہ اگر قریب تر ولی کی رائے سے بر وقت واقف ہونا ممکن نہ ہو اور تاخیر میں کفو کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو دور کے ولی کا کرایا ہوا نکاح درست ہے۔

   

  فیس بکی دوست باخبر رہنے کے لئے ہمارا فیس بک پیج فالوو کرسکتے ہیں۔ شکریہ۔

آپ کی رائے یا تبصرہ